ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / اسپورٹس / جرمنی کے ایک ریلوے اسٹیشن پر فائرنگ، کم از کم چار افراد زخمی

جرمنی کے ایک ریلوے اسٹیشن پر فائرنگ، کم از کم چار افراد زخمی

Wed, 14 Jun 2017 15:22:32  SO Admin   S.O. News Service

برلن،13جون(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)جرمن پولیس نے بتایا کہ منگل تیرہ جون کو پیش آنے والے اس واقعے میں کم از کم چار افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں ایک خاتون پولیس افسر بھی شامل ہے۔ میونخ پولیس کے ترجمان مارکوس دا گلوریا نے بتایا کہ فائرنگ کا یہ واقعہ کوئی دہشت گردانہ کارروائی نہیں تھی، یہ کارروائی ایک شخص نے تنہا ہی کی تھی، جو اس وقت زیر حراست ہے اور اس کا کوئی سیاسی یا مذہبی پس منظر نہیں ہے۔

ترجمان کے بقول اس واقعے کے واحد ملزم کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ذرائع نے بتایا کہ اُنٹر فوۂرنگ نامی اسٹیشن پر کھڑے اس شخص نے اس کی شناختی دستاویزات طلب کیے جانے پر پستول نکال کر فائرنگ شروع کر دی تھی۔ پولیس کی جوابی کارروائی کے دوران یہ شخص خود بھی شدید زخمی ہو گیا۔ پولیس نے بتایا کہ خاتون پولیس اہلکار کو شدید زخم آئے ہیں جبکہ دیگر افراد معمولی زخمی ہیں، اس واقعے کے بعد اس اسٹیشن کو بند کر دیا گیا تھا اور ابتدائی تفتیش مکمل کرنے کے بعد ٹرینوں کی آمد و رفت بحال ہو چکی ہیفرنٹیکس کے اہلکار بحیرہ روم میں ڈوبتی ہوئی کشتیوں سے مہاجرین کو بچاتے ہیں لیکن پھر انہی مہاجرین کو اندراج کے ایسے مراکز میں منتقل کر دیا جاتا ہے، جہاں انہیں اپنی ملک بدری کا خطرہ بھی رہتا ہے۔

اگرچہ ترکی سے یونان اور پھر مشرقی یورپی ممالک کے راستے غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کافی حد تک محدود ہو گئی ہے تاہم یہ سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ اب بھی ماہانہ بنیادوں پر سینکڑوں لوگ لیبیا سے اٹلی اور دیگر راستوں سے یورپ پہنچنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ سرحدی نگرانی پر مامور یورپی ایجنسی فرنٹیکس کے سربراہ فابریس لیگیری نے بتایا کہ مہاجرین کی آمد روکنے سے متعلق یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والی ڈیل سے قبل یومیہ بنیادوں پر تقریباً ڈھائی ہزار تارکین وطن یونانی جزائر پر پہنچ رہے تھے جب کہ اب یہ تعداد صرف اسّی تا سو بنتی ہے۔ وسطی بحیرہ روم کے راستے لیبیا سے اٹلی پہنچنے والوں کی اکثریت مغربی افریقی ریاستوں سے تعلق رکھتی ہے۔ یورپ پہنچنے والے ایسے مہاجرین کی تعداد میں چالیس فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پچھلے سال وسطی بحیرہ روم کے راستے ایک لاکھ ساٹھ ہزار تارکین وطن یورپ پہنچے تھے جبکہ اس سال اپریل کے وسط تک یہ تعداد چھتیس ہزار تھی، جو پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 43 فیصد زیادہ ہے۔

سینیگال، گنی اور نائجیریا جیسے مغربی افریقی ملکوں سے یورپ کی طرف مہاجرت کرنے والے اکثریتی طور پر معاشی مقاصد کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ ان کی اکثریت نوجوان مردوں پر مشتمل ہوتی ہے لیکن ان میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہوتے ہیں۔ لیگیری بتاتے ہیں کہ اس طرح ترک وطن کرنے والے غریب نہیں ہوتے کیونکہ آخر انہیں انسانوں کے اسمگلروں کو بھی بھاری رقوم ادا کرنا پڑتی ہیں۔فرنٹیکس کے سربراہ فابریس لیگیری کے بقول غیر قانونی ترک وطن ختم نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جرائم پیشہ افراد اور انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے مجرموں کے نیٹ ورک پھیل رہے ہیں۔

لیگیری نے بتایا کہ وسطی بحیرہ روم والے روٹ پر چھوٹے اور بڑے جرائم پیشہ گروہوں کے علاوہ کئی اسمگلر انفرادی طور پر بھی سرگرم ہیں۔ پہلی سطح پر انفرادی اسمگلر یا معمولی جرائم پیشہ افراد ہوتے ہیں، جو بذات خود کشتیوں پر سفر نہیں کرتے تاہم وہ بڑی رقوم کے عوض تارکین وطن کے گروپ بناتے ہیں اور ان کے سفر کا انتظام کرتے ہیں۔ ان کے بعد بڑے مجرمان ہوتے ہیں، جو باقاعدہ نیٹ ورک چلاتے ہیں۔ وہ اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے لیبیا میں سابق پولیس اہلکاروں کی خدمات بھی حاصل کرتے ہیں۔یورپی پولیس یا یورو پول کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق انسانوں کی یورپ کی طرف غیر قانونی مہاجرت سے منسلک ناجائز کاروبار کی مالیت سن 2015میں 4.7تا 5.7بلین یورو تھی۔ تاہم پچھلے سال اس مالیت میں دو بلین یورو کی کمی ہوئی۔


Share: